Friday, June 22, 2012


ادب نامہ ۔۔۔ پریس کالونی کا کتّا ۔۔۔ تحریر: یوسف جمیل ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹیٹوال کے کتّے کی کہانی تو آپ نے سنی ہوگی ۔آج سرینگر کے فیشن ایبل ریذیڈنسی روڈ کی بغل میں واقع پریس کالونی کا کتّا منتظر شنوائی نظر آرہاہے ۔ اُس کی کہانی بھی سن لیجئے اور فیصلہ کیجئے کہ اس کا حشر کیا ہونا چاہئے ۔آخرکتّوں کی قسمت کا فیصلہ ہم انسان ہی تو کریں گے ۔ اُسے زندہ رہنے دیا جائے یا وہ یہ حق کھوچکاہے ۔آخری حکم ہم ہی جاری کرسکتے ہیں ۔ پریس کالونی کے اس کتے نے کب ، کہاں اور کن حالات میں جنم لیا۔ ہمیں اس کی بالکل خبر نہیں۔ ہمارے لئے اس کی کہانی 2008ء کے موسم گرما سے شروع ہوتی ہے ۔ امرناتھ شرائن بورڈ پر صوبائی حکومت کچھ اس قدر مہربان ہوگئی کہ رعایا کے ایک بڑے حصے کا خون کھول اُٹھا جوایک بڑی ایجی ٹیشن کا سبب بنا جوکشت وخون اور تباہی پر منتج ہوئی ۔وادیٔ کشمیر میں نفسانفسی کا عالم تھا۔ کئی ماہ پر محیط شورش کے دورن مسلسل کرفیو اور دیگر حفاظتی پابندیوں ، پکڑ دھکڑ اور حکومت اور اس کے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی طرف سے طاقت کے بے دریغ استعمال کے نتیجے میں ایک ایسا ماحول پیدا ہوگیا تھاکہ ہرایک کو جان کے لالے پڑ گئے تھے۔اشیائے خوردونوش نایاب تھیں یابالکل غائب ہوگئیں ۔اس میں جموں میں بعض عناصر کی طرف سے چلائی جارہی اقتصادی ناکہ بندی مہم کا بھی عمل دخل تھا ۔بالخصوص سرینگر شہر میں لوگ اپنے شب وروز بھوکے پیٹ گزارنے پرمجبور ہوگئے تھے ۔جب انسانوں کے لئے کھانے پینے کی کوئی چیز میسر نہیں تھی تو جانوروں کو کیا کھلاتے ، وہ کیا کھاتے اور کہاں سے کھاتے۔ ہمارے ساتھی فوٹوگرافر حبیب اللہ نقاش کے والد اچانک بیمار ہو گئے۔کسی طرح سے انہیں اسپتال پہنچایا گیا ۔ وہاں ان کی دیکھ بھال کے لئے حبیب اللہ کوبھی رُکنا پڑا ۔ بیٹا فرض نبھانے سے کیسے چوک سکتا تھا۔حبیب اللہ کی عدم موجودگی میں اس کے ایک ہم پیشہ ساتھی توصیف مصطفی نے پریس کالونی میں واقع اس کے فلیٹ کو اپنا عارضی مسکن اور اپنی پیشہ وارانہ سرگرمیوں مرکز بنالیا۔ غیرمعمولی پابندیوں اور انتہائی پُرخطر صورتحال میں کیا اپنی پیشہ وارنہ سرگرمیاں جاری رکھتا۔ بس ایک شوق ، ایک جنوں اور اپنے پیشے سے عقیدت نے اس عکاس کو اپنا گھربار چھوڑنے پر مجبورکیا تھا ۔ پریس کالونی میں کھڑی ایک عمارت کے فلیٹ نمبر2میں توصیف بالکل قید ہوکر رہ گیا ۔ایسا ہی یا اس سے بھی بدتر حال اُس کے ساتھی فوٹوگرافروں اور دوسرے صحافیوں کا تھا۔ اشیائے خوردنی کا اسٹاک ختم ہوچکاتھا۔ بازار مسلسل کرفیوں ، ہڑتال کے لئے کی گئی اپیلوں اور دھونس دبائو اور دھمکیوں کے طفیل بند پڑے تھے اور شہر سے باہر جانا ناممکن تھا کیونکہ انتظامیہ نے پہلے سے جاری کئے گئے کرفیو پاس منسوخ کئے تھے اور نئے کرفیو پاس جاری کرنے سے انکاری تھی ۔ کسمپرسی کی اس حالت میں جب توصیف نے اپنی عارضی رہائش گاہ کی عقبی کھڑکی سے باہر کی طرف دیکھاتو اُسکی جان میں جان آگئی ۔ایک ڈربے نُما پولیس گاڑی پریس کالونی میں آکر رُکی اور اس میں سوار کانگریس پارٹی کا ایک مقامی سرگرم رکن محمد سلطان منڈوعرف سلہ منڈو باہرآگیا اور پھرمسلح پولیس محافظوں کی معیت میں انگریزی روزنامہ ’’گریٹر کشمیر‘‘ کے دفتر کی جانب چلنے لگا ۔ غالباً اُسے وہاںکوئی پریس نوٹ اشاعت کی غرض سے سونپنا تھا۔توصیف دوڑ کر نیچے آگیا اور شناسا سے یوں مخاطب ہوا۔ ’’ہم بھوک سے بلک رہے ہیں ۔بڑی مہربانی ہوگی اگر ہمیں کہیں سے کچھ لا کے دے دو‘‘۔ توصیف نے اپنی جیب سے پانچ سو روپے کا نوٹ نکالا اور اسے محمدسلطان کو تھمانے لگا۔ اُس نے لینے سے انکار کیا لیکن یہ وعدہ کرکے وہاں سے چلا گیا ۔ ’’فکر نہ کرو ۔میں کچھ نہ کچھ انتظام کرلوں گا ‘‘۔ سہ پہر کو محمدسلطان ایک ذبح شدہ مرغ کو لے کردوبارہ پریس کالونی میں وارد ہوا۔ توصیف کو اُس وقت کسی فرشتے سے کم نظر نہیں آرہاتھا۔ اُس نے محمد سلطان کا شکریہ اداکیا اور فوراً کچن کی راہ لی ۔ مرغ کے خوردنی گوشت کا سالن تیار ہوا تو توصیف نے قریبی فلیٹس میں رہائش پذیر دوتین ساتھیوں کے ساتھ اسے نوش کیا ۔ سب اللہ کے حضور میں سربسجود ہوگئے پھر انہیں اُس نحیف کتّے کا خیال آگیا جوکئی دن سے پریس کالونی میں لڑکھڑاتے لڑکھڑاتے گھوم رہا تھا۔ اُس کی حالت سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں تھاکہ وہ بھی کئی دنوں کا بھوکا ہے ۔ توصیف نے تناول کئے گئے مرغ کی بچی ہڈیاں ایک برتن میں جمع کیں اور پھر انہیں باہر لے جاکراُس کتے کے آگے ڈال دیں۔ کتّے کی جان میں جان آگئی ہے یہ صاف نظر آرہا تھا۔ وہ دن اور آج کا دن ۔ یہ کتّا حبیب اللہ کا دَر چھوڑنے کے لئے بالکل تیار نظرنہیں آرہا ہے۔کئی بار اُسے پیٹا گیا ،لتاڑا گیا۔ اُس پر پتھر برسائے گئے ،ڈنڈے بھی چلائے گئے لیکن لگتا ہے کہ اس نے بھی وہاں سے نہ جانے کی قسم کھائی ہے ۔ کتّے نے حبیب اللہ کے فلیٹ تک جانے والے زینے کی بالائی سطح کے چبوترے کو اپنا دائمی مسکن بنا لیاہے ۔ لاکھ کوششوں کے باوجود بھی وہ اسے چھوڑنے کے لئے تیار نہیں ہواہے۔حبیب اللہ کو حال حال ہی میں مرغ اور بلیاں پالنے کا شوق چرایا ہے ۔یہ کتّا اُن سے بھی گھل مل گیا ہے مجال ہے کہ اس نے کبھی انہیں گزند پہنچانے کی کوشش کی ہو ۔ چاہے اُسے کئی دن تک بھوکا ہی کیوں نہ رکھا جائے۔ عمارت کی بالائی منزل میں دوروزناموں کے دفاتر واقع ہیں ۔جب ان کے ہاں کوئی انجان مہمان آتاہے تو کتّے کو چبوترے پر براجمان دیکھ کر الٹے پائوں لوٹنے میں ہی اپنی عافیت سمجھتاہے حالانکہ کتّے نے کبھی کسی شخص ،چھوٹے یا بڑے، کونقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی ہے۔ یہاں تک کہ وہ کسی پر بھونکتابھی نہیں ہے ۔ یہ اُن کتوں سے بالکل مختلف نظر آرہاہے جن پر انسانوں کے خلاف بغاوت کا الزام ہے ۔اپنے ایک صحافی دوست نے جو ان میں سے ایک روزنامے کا مدیر ہے ،مذاقاً یہ استفسار کیا ’’بھئی کہیں اس کتّے کو یہاں بٹھاکر کسی نے ہمارے اخبار کے خلاف سازش تو نہیں رچی ہے ؟‘‘وفاداری کتّے کے خمیر کا اہم جز ہے ۔ ہمیں تو یہ کتا خاندانی بھی لگتاہے ۔ اب جب میونسپلٹی والے شہریوں کے اصرار پر کتوں کی جان کے دشمن بن بیٹھے ہیں ہمیں اس کتے کی فکر ستارہی ہے۔ کہیں اسے ناکردہ گناہوں کی سزا نہ بھگتنا پڑے۔کتّے ،کتّے ہیں ،انسانوں کے ساتھ ان کا کیا مقابلہ۔ لیکن اسی سڑک پر ،اسی گلی میں ،اسی بستی میں ، ان ہی اقامت گاہوں میں ،اسی زینے پر انسانوں نے انسانوں کا خون بہانے میں کوئی عار محسوس نہیں کیا ۔ وہ تو انسان تھے اور یہ کتّا ہے ۔

No comments:

Post a Comment